Friday 30 October 2020

بارش کی آواز کو سن کر

 بارش کی آواز کو سن کر

پیڑوں کی آغوش میں سہمی شاخیں جھومنے لگتی ہیں

گردِ ملال میں لپٹے پتے، جاگ اٹھتے ہیں

اور ہوا کی پینگوں میں سرگوشیاں جھولنے لگتی ہیں

کھڑکی کی شیشوں پر جس دم پہلی بوندیں پڑتی ہیں تو

بارش کی آواز گھروں میں خوشبو بن کر در آتی ہے

دنیا کے بے انت دکھ اور اندیشوں کی

اڑتی مٹی بیٹھتی ہے اور

بجھے دلوں کی اقلیموں میں شمعیں جلنے لگتی ہیں

راہیں چلنے لگتی ہیں

بارش کی آواز کو سن کر

سینے کے آنگن میں رکھے بوجھ کی ڈھیری

ہولے ہولے گھٹتی ہے تو سانسیں ہلکی ہو جاتی ہیں

رم جھم کی آواز میں جیسے سب آوازیں کھو جاتی ہیں

بارش کی آواز کو سن کر

جاگتی آنکھیں

سپنوں کی دہلیز سے اپنے ریزہ ریزہ خواب اٹھائے

اور انہیں ترتیب میں لانے لگتی ہیں

مٹتی بنتی تصویریں، پھر دھیان میں آنے لگتی ہیں

بارش کی آواز کو سن کر


امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment