Monday 26 October 2020

مجھے بھی عشق تری بددعا نہ لگ جائے

 مجھے بھی عشق تِری بددعا نہ لگ جائے

میرے عقب میں کہیں یہ بلا نہ لگ جائے

چھپا ہوا ہوں کہیں اپنے خوف سے صاحب

کہاں ہوں میں مجھے میرا پتا نہ لگ جائے

جمال یار کو دل سے نکالتا نہیں میں

کہیں اسے بھی یہاں کی ہوا نہ لگ جائے

تجھے میں چوم لوں لیکن یہ ڈر بھی ہے مجھ کو

مِرے لبوں کو یہی ذائقہ نہ لگ جائے

چلو کہ اب یہاں سب کا قیام ختم ہوا

زمیں پہ ایک دن ایسی صدا نہ لگ جائے


قمر رضا شہزاد

No comments:

Post a Comment