Friday 30 October 2020

کبھی ایسا تموج تم نے دیکھا ہے

 کبھی ایسا تموّج تم نے دیکھا ہے


کبھی ایسا تموج تم نے دیکھا ہے

کبھی جذبات کا ایسا تموج تم نے دیکھا ہے

کہ سینے میں بھنور پڑتے ہوں تشنہ آرزوؤں کے

مگر ان کو میان موج رستہ بھی نہ ملتا ہو

کنارے تک رسائی کا اشارہ بھی نہ ملتا ہو

جب ایسا ہو تو ہر چشمے سے دھارے پھوٹ بہتے ہیں

وہ سنگ و گل کے پشتے ہوں کہ دریا کے کنارے

پھوٹ بہتے ہیں

وہی دھارے مگر ان سائبانوں کو ڈبوتے ہیں

کہ جن کے نیچے بیٹھ کر کچھ چاک داماں لوگ

اشکوں اور طوفانوں کے موتی بھی پروتے ہیں


اسلم انصاری

No comments:

Post a Comment