Friday 30 October 2020

سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے

 سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے

آگ جو محبت ہے

ہجر ہے، رفاقت ہے

آگ جو دہکتی ہے

آگ جو بہکتی ہے

آگ جو بھڑکتی ہے

آگ جو دھڑکتی ہے دل کے ایک گھاؤ میں

یاد رقص کرتی ہے سرخ سے الاؤ میں

سردیوں کی بارش کچھ زردیاں سی لاتی ہے

اک سفر کے لمحوں کی یاد ہم کو آتی ہے

اک سفر جو کاٹا تھا آنسوؤں کی بارش میں

ہجر کی رفاقت میں، وصل ہی کی خواہش میں

وصل جو گماں بھی تھا

وصل جو یقیں بھی تھا

وصل جو جواں بھی تھا

وصل جو نہیں بھی تھا

سردیوں کی بارش میں وصل کی رفاقت میں

ہجر کے زمانے ہیں

ہجر کے زمانوں میں

ہم ہیں داستانوں میں

داستان جاری ہے

بارشوں کی صورت میں امتحان جاری ہے

سردیوں کی بارش تو آگ جیسی ہوتی ہے

بین کرتی بیوہ کی سسکیوں سے وابستہ

سوگوار لمحوں کے راگ جیسی ہوتی ہے

آگ جیسی ہوتی ہے


رضی الدین رضی

No comments:

Post a Comment