کیا ملے آپ کی محفل میں بھلا ایک سے ایک
رشک ایسا ہے کہ بیٹھا ہے جدا ایک سے ایک
دل ملے ہاتھ ملے اٹھ کے نگاہیں بھی ملیں
وصل بھی عید ہے ملنے کو بڑھا ایک سے ایک
ایسے ویسوں کو تو منہ بھی نہ لگایا ہم نے
ماہ رُو ہم کو تو اچھا ہی ملا ایک سے ایک
کان سے دل نے لیا دل سے رگوں نے چھینا
لے رہا ہے تری باتوں کا مزا ایک سے ایک
ظرف دیکھا یہ مئے عشق کے سرشاروں کا
بے خودی میں بھی تو بیخود نہ کھلا ایک سے ایک
بیخود دہلوی
No comments:
Post a Comment