حُسن و عشق کا سنگم دیر تک نہیں رہتا
کوئی بھی حسین موسم دیر تک نہیں رہتا
لوٹ جا رستے سے، تم نئے مسافر ہو
پیار کا سفر ہمدم، دیر تک نہیں رہتا
اونچے اونچے محلوں کی داستاں یہ کہتی ہے
قہقہوں کا یہ عالم، دیر تک نہیں رہتا
دل کسی کا ٹوٹے یا، گھر کسی کا جل جائے
بے وفا کے دل میں غم، دیر تک نہیں رہتا
ہوسکے تو چاہت کی چوٹ سے بچے رہنا
ورنہ زخم پر مرہم، دیر تک نہیں رہتا
کیوں غرور کرتے ہو، جا کہ تم بلندی پر
شہرتوں کا یہ پرچم، دیر تک نہیں رہتا
کون جانے، کب کس پر، زندگی ٹھر جائے
کوئی رستمِ اعظم، دیر تک نہیں رہتا
تاج! اسپِ تازی پر کوئی آنے والا ہے
ظلم و جبر کا عالم، دیر تک نہیں رہتا
تاجور سلطانہ
No comments:
Post a Comment