Friday, 30 October 2020

روز اس شہر میں مرنے کی دعا ملتی ہے

 اب تو آ جا اے مِری جان کے پیارے دشمن

ہر گھڑی درد کی شدت سے سسکتی آنکھیں

اور اوپر سے تِرے وصل کے خوابوں کا عذاب

روز آنگن میں کھڑے پیڑ سے گرتے پتے

اور سرِ شام پرندوں پہ گزرتی آفت

نبض اور دل کی بغاوت سے تڑپتی ہے حیات

اس بھرے شہر میں بڑھتا ہوا لوگوں کا قحط

روز ہوتی ہے مِرے ساتھ دیواروں کی جھڑپ

روز اک سانس کو پھانسی کی سزا ملتی ہے

اب تو آ جا اے مِری جان کے پیارے دشمن

اب تو آ جا کہ ترے ہجر کے قیدی کو یہاں

روز اس شہر میں مرنے کی دعا ملتی ہے


نامعلوم

No comments:

Post a Comment