Thursday 29 October 2020

وقت اس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا

 وقت اس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا

قصہ اک آہ میں بھی سمٹ کر طویل تھا

عہدِ بہار تھا کہ کوئی وحشتِ حسیں

جس پھول کو ٹٹول کے دیکھا علیل تھا

موت آئی اور دیکھ کے واپس چلی گئی

جو تھا وہ زندگی کی ادا کا قتیل تھا

میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا

ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

سمجھی نہ گو کسی نے مِری بات اے عدم

میرا سکوت حرفِ خرد کی دلیل تھا​


عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment