وقت اس حسیں کے پاس کچھ اتنا قلیل تھا
قصہ اک آہ میں بھی سمٹ کر طویل تھا
عہدِ بہار تھا کہ کوئی وحشتِ حسیں
جس پھول کو ٹٹول کے دیکھا علیل تھا
موت آئی اور دیکھ کے واپس چلی گئی
جو تھا وہ زندگی کی ادا کا قتیل تھا
میں میکدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا
ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا
سمجھی نہ گو کسی نے مِری بات اے عدم
میرا سکوت حرفِ خرد کی دلیل تھا
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment