تیری آواز گیت
رات سنسان تھی بوجھل تھیں فضا کی سانسیں
روح پر چھائے تھے بے نام غموں کے سائے
دلِ کو یہ ضد تھی کہ تُو آئے تسلی دینے
میری کوشش تھی کہ کمبخت کو نیند آ جائے
دیر تک آنکھوں میں چبھتی رہی تاروں کی چمک
دیر تک ذہن سلگتا رہا تنہائی میں
اپنے ٹھکرائے ہوئے دوست کی پرسش کے لیے
تُو نہ آئی مگر اس رات کی پہنائی میں
یوں اچانک تری آواز کہیں سے آئی
جیسے پربت کا جگر چیر کے جھرنا پھوٹے
یا زمینوں کی محبت میں تڑپ کر ناگاہ
آسمانوں سے کوئی شوخ ستارہ ٹوٹے
شہد سا گھل گیا تلخابۂ تنہائی میں
رنگ سا پھیل گیا دل کے سیہ خانے میں
دیر تک یوں تری مستانہ صدائیں گونجیں
جس طرح پھول چٹکنے لگیں ویرانے میں
تُو بہت دور کسی انجمنِ ناز میں تھی
پھر بھی محسوس کیا میں نے کہ تُو آئی ہے
اور نغموں میں چھپا کر مرے کھوئے ہوئے خواب
میری روٹھی ہوئی نیندوں کو منا لائی ہے
رات کی سطح پر ابھرے ترے چہرے کے نقوش
وہی چپ چاپ سی آنکھیں وہی سادہ سی نظر
وہی ڈھلکا ہوا آنچل وہی رفتار کا خم
وہی رہ رہ کے لچکتا ہوا نازک پیکر
تُو مرے پاس نہ تھی پھر بھی سحر ہونے تک
تیرا ہر سانس مرے جسم کو چھو کر گزرا
قطرہ قطرہ ترے دیدار کی شبنم ٹپکی
لمحہ لمحہ تری خوشبو سے معطر گزرا
اب یہی ہے تجھے منظور تو اے جانِ قرار
میں تری راہ نہ دیکھوں گا سیہ راتوں میں
ڈھونڈ لیں گی مری ترسی ہوئی نظریں تجھ کو
نغمہ و شعر کی امڈی ہوئی برساتوں میں
اب ترا پیار ستائے گا تو میری ہستی
تیری مستی بھری آواز میں ڈھل جائے گی
اور یہ روح جو تیرے لیے بے چین سی ہے
گیت بن کر ترے ہونٹوں پہ مچل جائے گی
تیرے نغمات ترے حسن کی ٹھنڈک لے کر
میرے تپتے ہوئے ماحول میں آ جائیں گے
چند گھڑیوں کے لیے ہوں کہ ہمیشہ کے لیے
مری جاگی ہوئی راتوں کو سلا جائیں گے
ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment