سنا ہے، کیچڑ کے سوکھنے پر حیات چولا بدل رہی تھی
شجر سے نیچے اتر کے خلقت، نحیف قدموں پہ چل رہی تھی
وسیع رقبے کا بے نہایت، خطیر ملبہ سمٹ رہا تھا
ضعیف تارے کی دھونکنی سے، مہیب ظلمت ابل رہی تھی
طواف کرتی ہوا کا رونا، مطاف میں غل مچا رہا تھا
حرم کے پھاٹک سے بین کرتی، کوئی سواری نکل رہی تھی
وبا کی آفت کا تازیانہ، سیاہ پشتوں پہ پڑ چکا تھا
نگار خانے کے طاقچے میں، خبر کی ہانڈی ابل رہی تھی
فلک کے کوٹھے پہ دیکھتا ہوں، نیا ستارہ چمک رہا ہے
زمین پہ گرنے سے قبل شاید، شعاع قرنوں سے چل رہی تھی
سلام کرتی ہوئی سحر کا، کِواڑ چوپٹ کھلا ہوا تھا
فلک کا نیلم چمک رہا تھا، ندی میں چاندی پگھل رہی تھی
سفر کا صفحہ کھلا تو اس پر، فنا کا نقشہ بنا ہوا تھا
ہمارا نشہ اتر چکا تھا، ہماری مستی سنبھل رہی تھی
احمد جہانگیر
No comments:
Post a Comment