زندگی سے تھک کے اس کوچہ میں ہوں بیٹھا ہوا
جیسے اپنے وقت کا صوفی بڑا پہنچا ہوا
جس طرح بادل برس جائیں نکھر جانے کے بعد
آج آنسو بہہ کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا
جانے کب سے دھوپ میں پیاسے پڑے تھے خار دشت
میرے تلووں کا سہارا مل گیا، اچھا ہوا
شہر بے احساس میں میری صدائے احتجاج
تیر ہو جیسے اندھیرے میں کوئی چھوڑا ہوا
طرز استفسار کب ہے میری باتوں کا جواب
یہ کوئی انداز ہے پھر کیا ہوا پھر کیا ہوا
زندگی رقصاں ہو محشر جھوم اٹھے کائنات
خواب سے اٹھا ہوں میں انگڑائیاں لیتا ہوا
محشر عنایتی
No comments:
Post a Comment