مصرع تِری حیا کی طرف جا رہا ہے یار
یہ شعر بھی دعا کی طرف جا رہا ہے یار
مجھ سے یہ اک گلاب بھی لے جائے لازمی
کوئی اگر خدا کی طرف جا رہا ہے یار
تیرا مریض موت کے بالکل قریب ہے
بیمار اب شفا کی طرف جا رہا ہے یار
کچھ لوگ چاند تک، تو میں تجھ تک پہنچ گیا
انسان ارتقاء کی طرف جا رہا ہے یار
آدم کی آل باپ کے رستے پہ چل پڑی
ہر آدمی خطا کی طرف جا رہا ہے یار
یہ عشق ہے اور عشق میں دل کا نہ پوچھیے
اندھا کسی صدا کی طرف جا رہا ہے یار
ڈھلتے اداس شخص کی تصویر دیکھیے
روشن دِیا ہوا کی طرف جا رہا ہے یار
کیسا عجیب شہر ہے کیسے شریف لوگ
ہر ہاتھ بد دعا کی طرف جا رہا ہے یار
ندیم راجہ
No comments:
Post a Comment