Monday, 26 October 2020

گھر میں چیزیں بڑھ رہی ہیں زندگی کم ہو رہی ہے

 گھر میں چیزیں بڑھ رہی ہیں زندگی کم ہو رہی ہے

دھیرے دھیرے گھر کی اپنی روشنی کم ہو رہی ہے

شہر کے بازار کی رونق میں دل بجھنے لگے ہیں

خوب خوش ہونے کی خواہش میں خوشی کم ہو رہی ہے

اب کسی کو بھی چھوؤ، لگتا ہے پہلے سے چھوا سا

وہ جو تھی پہلے پہل کی سنسنی، کم ہو رہی ہے

طے شدہ لفظوں میں کرتے ہیں ہم اظہار محبت

اب تو پہلے عشق میں بھی ان کہی کم ہو رہی ہے

لے گیا یہ شہر اس کو میرے پہلو سے اٹھا کر

مجھ کو لگتا ہے مِری دیوانگی کم ہو رہی ہے

حسن کا بازار آنا جانا بھی کچھ بڑھ رہا ہے

کچھ مری آنکھوں کی بھی پاکیزگی کم ہو رہی ہے

وقت ڈنڈی مارتا ہے تولنے میں میرا حصہ

دن بھی چھوٹے پڑ رہے ہیں رات بھی کم ہو رہی ہے

شہر کی کوشش کہ خود کو اور پیچیدہ بنا لے

میری یہ تشویش میری سادگی کم ہو رہی ہے

ساحلوں کی بستیاں یہ دیکھ کر خاموش کیوں ہیں

بستیوں کے پھیلنے سے ہی ندی کم ہو رہی ہے

شام آتے ہی تمہیں رہتی ہے گھر جانے کی جلدی

فرحت احساس ان دنوں آوارگی کم ہو رہی ہے


فرحت احساس

No comments:

Post a Comment