گھر میں چیزیں بڑھ رہی ہیں زندگی کم ہو رہی ہے
دھیرے دھیرے گھر کی اپنی روشنی کم ہو رہی ہے
شہر کے بازار کی رونق میں دل بجھنے لگے ہیں
خوب خوش ہونے کی خواہش میں خوشی کم ہو رہی ہے
اب کسی کو بھی چھوؤ، لگتا ہے پہلے سے چھوا سا
وہ جو تھی پہلے پہل کی سنسنی، کم ہو رہی ہے
طے شدہ لفظوں میں کرتے ہیں ہم اظہار محبت
اب تو پہلے عشق میں بھی ان کہی کم ہو رہی ہے
لے گیا یہ شہر اس کو میرے پہلو سے اٹھا کر
مجھ کو لگتا ہے مِری دیوانگی کم ہو رہی ہے
حسن کا بازار آنا جانا بھی کچھ بڑھ رہا ہے
کچھ مری آنکھوں کی بھی پاکیزگی کم ہو رہی ہے
وقت ڈنڈی مارتا ہے تولنے میں میرا حصہ
دن بھی چھوٹے پڑ رہے ہیں رات بھی کم ہو رہی ہے
شہر کی کوشش کہ خود کو اور پیچیدہ بنا لے
میری یہ تشویش میری سادگی کم ہو رہی ہے
ساحلوں کی بستیاں یہ دیکھ کر خاموش کیوں ہیں
بستیوں کے پھیلنے سے ہی ندی کم ہو رہی ہے
شام آتے ہی تمہیں رہتی ہے گھر جانے کی جلدی
فرحت احساس ان دنوں آوارگی کم ہو رہی ہے
فرحت احساس
No comments:
Post a Comment