Saturday, 31 October 2020

وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا

 وہ جو غم کی پہلی بہار میں بنے آشنا

انہیں کوئی غم کا سندیس بھیج کے دیکھیے

انہیں پوچھیے

کہ نگاہِ وصل شناس میں کوئی اور ہے

جو ستارہ وار بلا رہا ہے کسی طرف

کہ یہ اپنی ذات سے کشمکش کی دلیل ہے

کوئی کیا کہے

کہ نئے جہان کی آرزو کے طلسم سے ہے

زبان گنگ

کوئی سنے بھی تو کیا سنے

کہ بلا کا شور امڈ رہا ہے فصیلِ شہرِ خیال سے

یہ جو حدِ شہرِ خیال ہے

یہ جنوں کے گرد خرد کی ایک فصیل ہے

یہ دلیل ہے

کہ وہ اپنی ذات کے عشق میں رہے سرگراں

انہیں کوئی نامۂ عشق بھیج کے دیکھئے

کہ اِدھر بھی ایک ستارہ ہے

جو نئے جہاں کی سبیل ہے

انہیں ڈھونڈئیے

وہ جوغم کی پہلی بہار میں بنے آشنا


ثمینہ راجا

No comments:

Post a Comment