دل چرا لے گئی دزدیدہ نظر دیکھ لیا
ہم نہ کہتے تھے کہ اس چور نے گھر دیکھ لیا
بندہ پرور غم فرقت کا اثر دیکھ لیا
داغ دل دیکھ لیا، داغ جگر دیکھ لیا
قد بھی کم عمر بھی کم مشق ستم اور بھی کم
کر چکے قتل مجھے جائیے گھر دیکھ لیا
شکوے کے ساتھ لگاوٹ بھی چلی جاتی ہے
جب کیا کچھ تو کن اکھیوں سے ادھر دیکھ لیا
داد خواہوں پہ نئی حشر میں آفت آئی
صف کی صف لوٹ گئی اس نے جدھر دیکھ لیا
قتل عشاق پہ لو اور اٹھاؤ خنجر
جھک گئی بار نزاکت سے کمر دیکھ لیا
نہ چھٹا تم سے یہ مے خانے کا رستہ بیخود
منہ چھپائے ہوئے جاتے ہو کدھر، دیکھ لیا
بیخود دہلوی
No comments:
Post a Comment