Monday 26 October 2020

شب و روز تماشہ خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

 شب و روز تماشہ


ذہن جب تک ہے

خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

ہونٹ جب تک ہیں

سوالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

بحث کرتے رہو لکھتے رہو نظمیں غزلیں

ذہن پر صدیوں سے طاری ہے جو مجلس کی فضا

اس خنک آنچ سے کیا پگھلے گی

سوچ لینے ہی سے حالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

نیند میں ڈوبی ہوئی آنکھوں سے وابستہ خواب

تیز کرنوں کی سنانوں پہ ہی رسوا سر عام

یہ شہید اپنی صلیبوں سے پلٹ آتے ہیں دل میں ہر شام

صبح ہوتی ہے مگر رات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

دن گزر جاتا ہے بے فیض کد و کاوش میں

ایک ان دیکھے جہنم کی تب و تابش میں

جسم اور جاں کی تگ و تاز کی ہر پرسش میں

درد و غم حسرت و محرومی کی ہر کاہش میں

طلب و ترک طلب سلسلۂ بے پایاں

مرگ ہی زیست کا عنوان ہے ہر خون شدہ خواہش میں

غم سے بھاگیں بھی تو فریاد و شکایات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

وقت وہ دولت نایاب ہے آتا نہیں ہاتھ

ہم مشینوں کی طرح جیتے ہیں پابندئ اوقات کے ساتھ

وقت بے کار گزرتا ہی چلا جاتا ہے

کرسیوں میزوں سے بے معنی ملاقاتوں میں

سینکڑوں بار کی اگلی ہوئی دہرائی ہوئی باتوں میں

مندگی رہنے کی تمنا کی مداراتوں میں

شکم و جاں کی عبادات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

صبح سے شام تلک اتنے خدا ملتے ہیں ہر کافر کو

سجدۂ شکر سے انکار کی مہلت نہیں ملنے پاتی

سینکڑوں لاکھوں خداؤں کی نظر سے چھپ کر

خود سے مل لینے کی رخصت نہیں ملنے پاتی

خود پرستوں سے بھی طاعات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

رات آتی ہے تو دل کہتا ہے ہم اپنے ہیں

خلوت خواب میں دنیا سے کنارا کر لیں

کل بھی دینا ہے لہو اپنا دل و دیدہ کی جھولی بھر لیں

جسم کے شور سے اور روح کی فریاد سے دم گھٹتا ہے

دن کے بے کار خیالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

بے نیازانہ بھی جینا ہے فقط ایک گماں

فکر موجود کو چھوڑیں تو غم نا موجود

ساتھ ہر سانس کے ہے سلسلۂ ہست و بود

غم آفاق کو ٹھکرائیں کریں ترک جہاں

پھر بھی یہ فکر کہ جینے کا ہو کوئی عنواں

بے نیازی سے غم ذات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے

ذہن میں اندھے عقیدوں کی سیاہی بھر لو

تاکہ اس نگری میں

کبھی افکار کے شعلوں کا گزر ہو نہ سکے

جبر کا حکم سنو

ہونٹوں کو اپنے سی لو

تاکہ ان راہوں سے

کبھی لفظوں کا سفر ہو نہ سکے

ذہن و لب پھر بھی نہیں چپ ہوتے

ان کے خاموش سوالات کی

پیچ در پیچ خیالات کی

زنجیر کہاں کٹتی ہے


وحید اختر

No comments:

Post a Comment