جس طرح سسکیاں آوازوں میں دب جاتی ہیں
اپنی غزلیں بھی کہیں سازوں میں دب جاتی ہیں
دل کے جذبات کہاں کھلتے ہیں شہزادی پر
دستکیں قلعے کے دروازوں میں دب جاتی ہیں
اب پریشان نہیں لگتے ہیں ہم چہروں سے
الجھنیں ہنستے ہوئے غاروں میں دب جاتی ہیں
ڈھونڈ پاتے ہیں کہاں قافلے والے ان کو
منزلیں راہ کے اندازوں میں دب جاتی ہیں
روز اخبار میں آ جاتی ہیں خفیہ باتیں
تم سمجھتے ہو کہ ہمرازوں میں دب جاتی ہیں
جب کبھی آنکھ کا تخمینہ لگائیں ساجد
راحتیں نیند کے خمیازوں میں دب جاتی ہیں
لطیف ساجد
No comments:
Post a Comment