Tuesday 27 October 2020

جس طرح سسکیاں آوازوں میں دب جاتی ہیں

 جس طرح سسکیاں آوازوں میں دب جاتی ہیں

اپنی غزلیں بھی کہیں سازوں میں دب جاتی ہیں

دل کے جذبات کہاں کھلتے ہیں شہزادی پر

دستکیں قلعے کے دروازوں میں دب جاتی ہیں

اب پریشان نہیں لگتے ہیں ہم چہروں سے

الجھنیں ہنستے ہوئے غاروں میں دب جاتی ہیں

ڈھونڈ پاتے ہیں کہاں قافلے والے ان کو

منزلیں راہ کے اندازوں میں دب جاتی ہیں

روز اخبار میں آ جاتی ہیں خفیہ باتیں

تم سمجھتے ہو کہ ہمرازوں میں دب جاتی ہیں

جب کبھی آنکھ کا تخمینہ لگائیں ساجد

راحتیں نیند کے خمیازوں میں دب جاتی ہیں


لطیف ساجد

No comments:

Post a Comment