ٹوٹ جانے میں کھلونوں کی طرح ہوتا ہے
آدمی عشق میں بچوں کی طرح ہوتا ہے
اس لیے مجھ کو پسند آتا ہے صحرا کا سکوت
اس کا نشہ تِری باتوں کی طرح ہوتا ہے
ہم جسے عشق میں دیتے ہیں خدا کا منصب
پہلے پہلے ہمِیں لوگوں کی طرح ہوتا ہے
جس سے بننا ہو تعلق، وہی ظالم پہلے
غیر ہوتا ہے نہ اپنوں کی طرح ہوتا ہے
چاندنی رات میں سڑکوں پہ قدم مت رکھنا
شہر جاگے ہوئے ناگوں کی طرح ہوتا ہے
بس یہی دیکھنے کو جاگتے ہیں شہر کے لوگ
آسماں کب تِری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
اس سے کہنا کہ وہ ساون میں نہ گھر سے نکلے
حافظہ عشق کا سانپوں کی طرح ہوتا ہے
اس کی آنکھوں میں امڈ آتے ہیں آنسو تابش
وہ جدا چاہنے والوں کی طرح ہوتا ہے
عباس تابش
No comments:
Post a Comment