گرد چہرے پر، قبائے خاک تن پر سج گئی
رات کی گم گشتگی جیسے بدن پر سج گئی
جا چکے موسم کی خوشبو، صورتِ تحریرِ گل
یاد کے ملبوس کی اِک اِک شِکن پر سج گئی
میں تو شبنم تھی ہتھیلی پر ترے گم ہو گئی
وہ ستارہ تھی سو تیرے پیرہن پر سج گئی
کچھ تو شہرِ درد کا احوال آنکھوں نے کہا
اور کچھ گلیوں کی سفاکی تھکن پر سج گئی
پروین شاکر
No comments:
Post a Comment