خوش ہیں بہت مزاج زمانہ بدل کے ہم
لیکن یہ شعر کس کو سنائیں غزل کے ہم
اے مصلحت چلیں بھی کہاں تک سنبھل کے ہم
انداز کہہ رہے ہیں کہ انساں ہیں کل کے ہم
شاید عروس زیست کا گھونگھٹ الٹ گیا
اب ڈھونڈنے لگے ہیں سہارے اجل کے ہم
بدلیں ذرا نگاہ کے انداز آپ بھی
اٹھے ہیں کچھ اصول وفا کے بدل کے ہم
جیسے تھکا تھکا کوئی گم کردہ کارواں
اٹھتے ہیں بیٹھ جاتے ہیں کچھ دور چل کے ہم
ہنسنا تو درکنار ہے رو بھی نہیں سکے
محشر چلے ہیں کس کی گلی سے نکل کے ہم
محشر عنایتی
No comments:
Post a Comment