سوئے ہوئے جذبوں کو جگانا ہی نہیں تھا
اے دل! وہ محبت کا زمانہ ہی نہیں تھا
مہکے تھے چراغ اور دہک اٹھی تھیں کلیاں
گو سب کو خبر تھی اسے آنا ہی نہیں تھا
دیوار پہ وعدوں کی امر بیل چڑھا دی
رخصت کے لیے اور بہانہ ہی نہیں تھا
اڑتی ہوئی چنگاریاں سونے نہیں دیتیں
روٹھے ہوئے اس خط کو جلانا ہی نہیں تھا
نیندیں بھی نظر بند ہیں تعبیر بھی قیدی
زنداں میں کوئی خواب سنانا ہی نہیں تھا
پانی تو ہے کم نقل مکانی ہے زیادہ
یہ شہر سرابوں میں بسانا ہی نہیں تھا
غلام محمد قاصر
No comments:
Post a Comment