کس کو ہو گا تِرے آنے کا پتہ میرے بعد
کون سن پائے گا لمحوں کی صدا میرے بعد
جس سے یادوں کے شبستان مہک اٹھتے تھے
اسی خوشبو کو ترستی ہے صبا میرے بعد
میں تو اک رقص تھا کچھ رنگ بھرے ذروں کا
راز یہ اہل زمانہ پہ کھلا میرے بعد
بام و در چیختے ہیں رینگتی تنہائی میں
شہر میں خاک اڑاتی ہے ہوا میرے بعد
حال دل کس سے کہے کس سے لپٹ کر روئے
شہر در شہر بھٹکتی ہے گھٹا میرے بعد
کوئی سنتا نہیں ویران پڑے ہیں کمرے
سر پٹختی ہے کواڑوں سے ہوا میرے بعد
شام کے سنگ سے ہی چاندنی شب پھوٹے گی
در بدر پھیلتی جائے گی ضیا میرے بعد
محمود شام
No comments:
Post a Comment