یہ کون سا پروانہ مؤا جل کے لگن میں
حیرت سے جو ہے شمع کی انگشت دہن میں
کہتے ہیں اسے چاہ زنخداں غلطی سے
بوسے کا نشاں ہے یہ ترے سیب ذقن میں
وہ آئینہ تن آئینہ پھر کس لیے دیکھے
جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں
وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا
نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں
مضموں نہیں لکھتے ہم اسے داغ جگر کا
رکھ دیتے ہیں لالے کی کلی خط کی شکن میں
یہ گرد کدورت سے پس مرگ تھا دل صاف
دھبہ نہ لگا خاک کا بھی میرے کفن میں
زنداں میں اسیروں سے یہ کہتا تھا مہِ مصر
غربت ہی میں آرام ملا اور نہ وطن میں
منور خان غافل
No comments:
Post a Comment