Thursday, 22 October 2020

یہ کون سا پروانہ موا جل کے لگن میں

 یہ کون سا پروانہ مؤا جل کے لگن میں

حیرت سے جو ہے شمع کی انگشت دہن میں

کہتے ہیں اسے چاہ زنخداں غلطی سے

بوسے کا نشاں ہے یہ ترے سیب ذقن میں

وہ آئینہ تن آئینہ پھر کس لیے دیکھے

جو دیکھ لے منہ اپنا ہر اک عضو بدن میں

وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا

نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں

مضموں نہیں لکھتے ہم اسے داغ جگر کا

رکھ دیتے ہیں لالے کی کلی خط کی شکن میں

یہ گرد کدورت سے پس مرگ تھا دل صاف

دھبہ نہ لگا خاک کا بھی میرے کفن میں

زنداں میں اسیروں سے یہ کہتا تھا مہِ مصر

غربت ہی میں آرام ملا اور نہ وطن میں


منور خان غافل

No comments:

Post a Comment