Thursday 22 October 2020

جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے

 جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے

تری چاہت میں مر جانا ضروری ہو گیا ہے

ہمیں تو اب کسی اگلی محبت کے سفر پر

نہیں جانا تھا پر جانا ضروری ہو گیا ہے

ستارا جب مِرا گردش سے باہر آ رہا ہے

تو پھر دل کا ٹھہر جانا ضروری ہو گیا ہے

درختوں پر پرندے لوٹ آنا چاہتے ہیں

خزاں رت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے

اندھیرا اس قدر گہرا گیا ہے دل کے اندر

کوئی سورج ابھر جانا ضروری ہو گیا ہے

بہت مشکل ہوا اندر کے ریزوں کو چھپانا

سو اب اپنا بکھر جانا ضروری ہو گیا ہے

تجھے میں اپنے ہر دکھ سے بچانا چاہتا ہوں

تِرے دل سے اتر جانا ضروری ہو گیا ہے

نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اس دل پہ حیدر

پرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے


حیدر قریشی

No comments:

Post a Comment