تِرا غم اشک بن کر آ گیا ہے
کہ پھر آگے سمندر آ گیا ہے
بظاہر خشک سالی ہے گھروں پر
مگر سیلاب اندر آ گیا ہے
نیا پیغام شیشے پر لکھوں گا
کہ میرے ہاتھ پتھر آ گیا ہے
سہارا کیا دِیا گِرتے مکاں کو
کہ ملبہ میرے اوپر آ گیا ہے
یہاں پر بھی وہی صحرا ہے راحت
میں سمجھا تھا مِرا گھر آ گیا ہے
راحت سرحدی
No comments:
Post a Comment