Thursday, 22 October 2020

ترا غم اشک بن کر آ گیا ہے

 تِرا غم اشک بن کر آ گیا ہے

کہ پھر آگے سمندر آ گیا ہے

بظاہر خشک سالی ہے گھروں پر

مگر سیلاب اندر آ گیا ہے

نیا پیغام شیشے پر لکھوں گا

کہ میرے ہاتھ پتھر آ گیا ہے

سہارا کیا دِیا گِرتے مکاں کو 

کہ ملبہ میرے اوپر آ گیا ہے 

یہاں پر بھی وہی صحرا ہے راحت

میں سمجھا تھا مِرا گھر آ گیا ہے 


راحت سرحدی

No comments:

Post a Comment