اب اور کتنی بھلا ہم تمہیں صفائی دیں
تم اپنے زعم سے نکلو تو ہم دکھائی دیں
تمہیں تو ٹھیک سے دل مانگنا نہیں آتا
تمہارے ہاتھ میں کیا کاسۂ گدائی دیں
کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ذرا سی خاموشی
اب اتنے شور میں ہم کیا تمہیں سنائی دیں
یہ لوگ بسترِ حرص و ہوس سے جا لگے ہیں
انہیں دعا نہیں لگتی، انہیں دوائی دیں
خدا گواہ تم اتنے حسین ہو کہ تمہیں
ہمارے بس میں اگر ہو تو ہم خدائی دیں
ہمارا لکھا غلط پڑھ رہے ہیں لوگ ابھی
کہاں سے لا کے انہیں حرف آشنائی دیں
یہ ٹھیک ہے کہ کریں وقف عیش دنیا بھی
مگر خدا کے لیے گھر بھی کچھ کمائی دیں
ہمارے دل کے در و بام تک تو آ گئے ہو
تم ہی کہو کہ تمہیں اور کیا رسائی دیں
ہم اک دہائی سے مصروفِ عشق ہیں عامی
تو کیا ضروری ہے اب ہر جگہ دُہائی دیں
عمران عامی
No comments:
Post a Comment