Thursday 22 October 2020

اب اور کتنی بھلا ہم تمہیں صفائی دیں

 اب اور کتنی بھلا ہم تمہیں صفائی دیں

تم اپنے زعم سے نکلو تو ہم دکھائی دیں

تمہیں تو ٹھیک سے دل مانگنا نہیں آتا

تمہارے ہاتھ میں کیا کاسۂ گدائی دیں

کہیں سے ڈھونڈ کے لاؤ ذرا سی خاموشی

اب اتنے شور میں ہم کیا تمہیں سنائی دیں

یہ لوگ بسترِ حرص و ہوس سے جا لگے ہیں

انہیں دعا نہیں لگتی، انہیں دوائی دیں

خدا گواہ تم اتنے حسین ہو کہ تمہیں

ہمارے بس میں اگر ہو تو ہم خدائی دیں

ہمارا لکھا غلط پڑھ رہے ہیں لوگ ابھی

کہاں سے لا کے انہیں حرف آشنائی دیں

یہ ٹھیک ہے کہ کریں وقف عیش دنیا بھی

مگر خدا کے لیے گھر بھی کچھ کمائی دیں

ہمارے دل کے در و بام تک تو آ گئے ہو

تم ہی کہو کہ تمہیں اور کیا رسائی دیں

ہم اک دہائی سے مصروفِ عشق ہیں عامی

تو کیا ضروری ہے اب ہر جگہ دُہائی دیں


عمران عامی

No comments:

Post a Comment