بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے
اب کے تجھے سپرد خدا بھی نہ کر سکے
تقسیم ہو کے ره گئے خود کرچیوں میں ہم
نام وفا کا قرض ادا بھی نہ کر سکے
نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ
ٹوٹے کچھ اس طرح کہ صدا بھی نہ کر سکے
خوش بھی نہ رکھ سکے تجھے ہم اپنی چاه میں
اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی نہ کر سکے
ایسا سلوک کر کہ تماشائی ہنس پڑیں
کوئی گلہ گزار، گلہ بھی نہ کر سکے
ہم منتظر رہے، کوئی مشقِ ستم تو ہو
تم مصلحت شناس، جفا بھی نہ کر سکے
اپنی تمام یادیں میرے پاس چھوڑ دی تم نے
تم ٹھیک طرح سے مجھ کو تنہا بھی نہ کر سکے
اعتبار ساجد
No comments:
Post a Comment