Friday, 23 October 2020

بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے

 بچھڑے تو قربتوں کی دعا بھی نہ کر سکے

اب کے تجھے سپرد خدا بھی نہ کر سکے

تقسیم ہو کے ره گئے خود کرچیوں میں ہم

نام وفا کا قرض ادا بھی نہ کر سکے

نازک مزاج لوگ تھے ہم جیسے آئینہ

ٹوٹے کچھ اس طرح کہ صدا بھی نہ کر سکے

خوش بھی نہ رکھ سکے تجھے ہم اپنی چاه میں

اچھی طرح سے تجھ کو خفا بھی نہ کر سکے

ایسا سلوک کر کہ تماشائی ہنس پڑیں

کوئی گلہ گزار، گلہ بھی نہ کر سکے

ہم منتظر رہے، کوئی مشقِ ستم تو ہو

تم مصلحت شناس، جفا بھی نہ کر سکے

اپنی تمام یادیں میرے پاس چھوڑ دی تم نے

تم ٹھیک طرح سے مجھ کو تنہا بھی نہ کر سکے


اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment