کبھی تو سوچ، تِرے سامنے نہیں گزرے
وہ سب سمے جو تِرے دھیان سے نہیں گزرے
یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں بھی
یہ واقعے کسی تقریب سے نہیں گزرے
ان آئینوں میں جلے ہیں ہزارعکسِ عدم
دوامِ درد، تِرے رتجگے نہیں گزرے
سپردگی میں بھی اک رمزِ خود نگہ داری
وہ میرے دِل سے مِرے واسطے نہیں گزرے
بکھرتی لہروں کے ساتھ ان دنوں کے تنکے بھی تھے
جو دل میں بہتے ہوئے رک گئے، نہیں گزرے
انہیں حقیقتِ دریا کی کیا خبر امجد
جو اپنی روح کی منجدھار سے نہیں گزرے
مجید امجد
No comments:
Post a Comment