غم کے مجرم، خوشی کے مجرم ہیں
لوگ اب زندگی کے مجرم ہیں
اور کوئی گناہ یاد نہیں
سجدۂ بیخودی کے مجرم ہیں
استغاثہ ہے راہ و منزل
راہزن رہبری کے مجرم ہیں
میکدے میں یہ شور کیسا ہے
بادہ کش بندگی کے مجرم ہیں
دشمنی آپ کی عنایت ہے
ہم فقط دوستی کے مجرم ہیں
ہم فقیروں کی صورتوں پہ نہ جا
خدمتِ آدمی کے مجرم ہیں
کچھ غزالانِ آگہی ساغر
نغمہ و شاعری کے مجرم ہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment