اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی
بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی
ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا
محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی
تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا، گھڑی ہوتی نہیں تھی
دِیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک
پھر ایسی آگ، جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی
ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا
شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی
ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا، ہم ہیں، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی، موجودگی ہوتی نہیں تھی
بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے
کہ جس شے پر نظر پڑتی، وہی ہوتی نہیں تھی
کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے، جانتے ہیں
کہ دن کیسے ہوا، جب رات بھی ہوتی نہیں تھی
شاہین عباس
No comments:
Post a Comment