Friday, 2 October 2020

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

 اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی

بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو

بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی

ہمیں ان حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا

محبت ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی

تمہی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے

ہمارا وقت اچھا تھا، گھڑی ہوتی نہیں تھی

دِیا پہنچا نہیں تھا، آگ پہنچی تھی گھروں تک

پھر ایسی آگ، جس سے روشنی ہوتی نہیں تھی

ہمیں یہ عشق تب سے ہے کہ جب دن بن رہا تھا

شبِ ہجراں جب اتنی سرسری ہوتی نہیں تھی

ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا، ہم ہیں، یہیں ہیں

کہ جب موجودگی، موجودگی ہوتی نہیں تھی

بہت تکرار رہتی تھی بھرے گھر میں کسی سے

کہ جس شے پر نظر پڑتی، وہی ہوتی نہیں تھی

کہانی کا جنہیں کچھ تجربہ ہے، جانتے ہیں

کہ دن کیسے ہوا، جب رات بھی ہوتی نہیں تھی


شاہین عباس

No comments:

Post a Comment