Tuesday, 4 August 2020

اس سے پہلے کہ کسی گھاٹ اتارے جاتے

اس سے پہلے کہ کسی گھاٹ اتارے جاتے
ہم ہی بیتاب تھے، ہم مفت میں مارے جاتے
حدِ ادراک سے آگے تھی تِرے قرب کی شام
ڈھونڈنے تجھ کو کہاں چاند ستارے جاتے 
خود ہی آ جاتا ہے تُو اپنی ہوس کی زد میں
ورنہ صدقے تِری چاہت میں اتارے جاتے
تجھ سے منسوب ہوئے تو یہ حسرت ہی رہی
ہم کبھی، اپنے حوالے سے پکارے جاتے
تُو نے خود حلقۂ امواج سے منہ موڑ لیا
دور تک ورنہ تِرے ساتھ "کنارے" جاتے
مشعلیں غم کی فروزاں تھیں ہر اک گھر میں سلیم
کس کی دہلیز پہ ہم "درد" کے مارے جاتے

صفدر سلیم سیال

No comments:

Post a Comment