Tuesday, 4 August 2020

یہ بھی ممکن ہے اسی دشت سے دریا نکلے

یہ بھی ممکن ہے اسی دشت سے دریا نکلے
مِرے سائے سے مِرے جسم کا لاوا نکلے
کس قدر عام سے تھے تیرے خدوخال، مگر
دل میں "اترے" تو وہی حسن سراپا نکلے
گھومتا پھرتا ہوں گلیوں میں طبیعت کے خلاف
کسی دروازے سے شاید تِرا چہرہ نکلے
مجھ پہ یوں بر سرِ منبر تو نہ کس آوازے
کیا عجب ہے تِرا قد مجھ سے بھی چھوٹا نکلے
میں تو سمجھا تھا، مقدر ہے مِرا تنہائی
اجنبی دیس کے انساں بھی شناسا نکلے
یہ سمجھ لو کسی طوفان کی آمد ہے سلیم
بہتے دریا سے اگر کوئی "پیاسا" نکلے

صفدر سلیم سیال 

No comments:

Post a Comment