یہ بھی ممکن ہے اسی دشت سے دریا نکلے
مِرے سائے سے مِرے جسم کا لاوا نکلے
کس قدر عام سے تھے تیرے خدوخال، مگر
دل میں "اترے" تو وہی حسن سراپا نکلے
گھومتا پھرتا ہوں گلیوں میں طبیعت کے خلاف
مجھ پہ یوں بر سرِ منبر تو نہ کس آوازے
کیا عجب ہے تِرا قد مجھ سے بھی چھوٹا نکلے
میں تو سمجھا تھا، مقدر ہے مِرا تنہائی
اجنبی دیس کے انساں بھی شناسا نکلے
یہ سمجھ لو کسی طوفان کی آمد ہے سلیم
بہتے دریا سے اگر کوئی "پیاسا" نکلے
صفدر سلیم سیال
No comments:
Post a Comment