وہ جو ملنے کے جتن کرتا تھا جانے کیا کیا
اب وہ کرتا ہے نہ ملنے کے بہانے کیا کیا
اگرچہ اک عمر ہوئی شہرِ نگاراں چھوڑے
پھر بھی ہوتے رہے مشہور فسانے کیا کیا
اب ملاقات کی فرصت ہی نہیں ملتی ہمیں
کبھی رہتی تھی شب و روز اسے میری تلاش
اب وہ کرتا ہے شب و روز نہ جانے کیا کیا
ابھی بے ساختہ گزرا ہے کوئی زلفِ جمال
یاد" آئے "تِرے" انداز "پرانے" کیا کیا"
بدگماں وہ بھی رہا ہم سے کہ جس کی خاطر
ہم سے ناراض ہوئے جانے گھرانے کیا کیا
بڑی مشکل سے اسے ہم نے بھلایا تھا سلیم
لوگ آتے ہیں ابھی جی کو جلانے کیا کیا
صفدر سلیم سیال
No comments:
Post a Comment