Tuesday, 4 August 2020

لہو کی پوشاک

لہو کی پوشاک

خوب صورت اجالوں کے اس شہر میں
امن آسودہ خوابوں سے باہر نکل کر
ہلاکت کے سیلاب میں گر گیا
پیار دستِ ہوس کی علامت بنا
ہم شکستہ بدن
مقتلوں کی لہو رنگ پوشاک پہنے ہوئے
ظلم کی آگ میں جل رہے ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

زرد کوچے میں سنسان رستے میں پُرشور بازار میں
مسجدوں میں، گھروں میں، اجالوں کے دربار میں
چند پوشیدہ ہاتھوں کو خنجر چلانے کا اعزاز ملتا رہا ہے
میری اجلی دعائیں بھی کالے عقابوں کی یلغار میں
فاختہ کو پناہیں نہیں دے سکی ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

زندگی کے چمکتے ہوئے ساحلوں پر سمندر نہیں
زخم سے زخم تک دکھ کے نادیدہ جنگل اتر آئے ہیں
آنکھ بے خوابیوں کی تھکن بن گئی
نیند پیاسے پرندے کی پرواز ہے
روح سے رو ح تک آنسوں نے جو لکھی وہ آواز ہے
اپنے چہروں کو ٹکروں میں کٹتے ہوئے دیکھ کر
ریزہ ریزہ ہوئے ہیں بہت
غم کی اڑتی ہوئی دھول میں جسم و جاں کھو گئے ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

رات کے اس سفر میں کوئی نوحہ گر بھی نہیں
کوئی آواز آسودگی معتبر بھی نہیں
خیمہ خیمہ چراغوں کے اندر سیاہ آندھیاں ہیں
کہ وحشت زدہ ماہ خورشید سیارگاں ہیں
بہت عکس ٹوٹے ہیں اور آئینے بدگماں ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

خوب صورت اجالوں کے اس شہر میں
قتل گاہیں بہت شہرتیں پا رہی ہیں
کہ اخبار زندہ لہو چھاپتے چھاپتے مر چکے ہیں
مگر وہ مسیحا نہیں ہے کہیں جو کسی نوجواں لاش پر
باپ کی بوڑھی چیخوں کو سن کر کوئی اسم پڑھ دے
نہ مریم کوئی قتل گاہوں سے گزری
کہ صد چاک سینوں کو ممتا کا آسیب کہتی
اجالوں کے اندر سیاہ پوش لشکر چھپے ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

شہر کے حاکمو
پتھروں کی حدوں میں کھڑے ہو کے تم
اپنے کالے ہنر آزماتے رہے ہو
فصیلوں سے اتری ہوئی بے خدوخال پرچھائیاں
تم ہمارے شکستہ گھروں میں بچھاتے رہے ہو
مگر تم کو معلوم ہے
ہم تمہاری عداوت کے ہر عہد میں
قتل ہوتے بھی ہیں اور ڈرتے نہیں
ہم اساطیر کا ایسا کردار ہیں
آگ میں جل بھی جائیں تو مرتے نہیں
ہر نئی شام
خوابوں کی دہلیز پر تازہ چہرے سجاتی رہی ہے
کہ ہم صبح کا تازہ امکان ہیں
اپنے سچے قبیلے کی پہچان ہیں
ہم شکستہ بدن
مقتلوں کی لہو رنگ پوشاک پہنے ہوئے
ظلم کی آگ میں جل رہے ہیں
مگر کس کو آواز دیں؟
کون انصاف دے گا ہمیں؟

جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment