Tuesday, 4 August 2020

جب دھوپ کو پہنا ہے تو بارش میں نہ رہنا

تم مجھ سے بچھڑ کر مِری خواہش میں نہ رہنا
جب دھوپ کو پہنا ہے، تو بارش میں نہ رہنا
پھولوں سے زیادہ ہے تِرے جسم کا موسم
لیکن کسی سورج کی "نوازش" میں نہ رہنا
جب سے تِری خوشبو کے تعاقب میں چلا ہوں
اچھا نہیں لگتا مجھے "گردش" میں نہ رہنا
اس شہر کی آنکھوں میں نئے رنگ نہیں ہیں
اے میرے سخن خواب! نمائش میں نہ رہنا
عادت ہے اگر نیند میں چلنے کی تو جاذب
جل جاؤ گے، سورج کی پرستش میں نہ رہنا

جاذب قریشی

No comments:

Post a Comment