کس لیے رقص دکھاتا ہوں مجھے کیا معلوم
میں تو بس وقفِ تماشا ہوں مجھے کیا معلوم
کیسا ہنگامہ برابر کے مکاں میں ہے مقیم
میں تو خود شور میں رہتا ہوں مجھے کیا معلوم
کون رہتا ہے مِرے دل کے نہاں خانے میں
ایک خورشید سے منسوب ہیں دن رات مِرے
دھوپ ہوں یا کوئی سایہ ہوں مجھے کیا معلوم
مجھ میں آباد ہے بچھڑی ہوئی یادوں کا ہجوم
لوگ کہتے ہیں میں تنہا ہوں مجھے کیا معلوم
کوئی رُت ہو، مِری تقدیر ہے بہتے رہنا
وقت ہوں، اشک ہوں، دریا ہوں مجھے کیا معلوم
رضی حیدر
No comments:
Post a Comment