Tuesday, 4 August 2020

جلوۂ یار نہ چھپ جائے سر بام کہیں

جلوۂ یار نہ چھپ جائے سرِ بام کہیں
جلد اے حوصلۂ دید مجھے تھام کہیں
بزمِ ساقی کا یہ حال ہوا میرے بعد
خُم کہیں ہے تو صراحی ہے کہیں جام کہیں
آہ، کہنا وہ تِرا پا کے مجھے گرمِ نظر
ایسی باتوں سے نہ ہو جاؤں میں بدنام کہیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ انداز ہے کیا
قصد ان کا کہیں جانے کا ہے پیغام کہیں
رنج بے سود سے حاصل ہو یونہی کاش نجات
مار ہی ڈالے ہمیں وہ بتِ خود کام کہیں
کچھ کچھ اس راز کی ہم کو بھی خبر ہے حسرت
آپ جاتے ہیں جو روزانہ سرِ شام کہیں

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment