جلوۂ یار نہ چھپ جائے سرِ بام کہیں
جلد اے حوصلۂ دید مجھے تھام کہیں
بزمِ ساقی کا یہ حال ہوا میرے بعد
خُم کہیں ہے تو صراحی ہے کہیں جام کہیں
آہ، کہنا وہ تِرا پا کے مجھے گرمِ نظر
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ انداز ہے کیا
قصد ان کا کہیں جانے کا ہے پیغام کہیں
رنج بے سود سے حاصل ہو یونہی کاش نجات
مار ہی ڈالے ہمیں وہ بتِ خود کام کہیں
کچھ کچھ اس راز کی ہم کو بھی خبر ہے حسرت
آپ جاتے ہیں جو روزانہ سرِ شام کہیں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment