Tuesday, 4 August 2020

عشق میں جان سے گزر جائیں

عشق میں جان سے گزر جائیں
اب یہی جی میں ہے کہ مر جائیں
یہ ہمیں ہیں کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے، بے خبر جائیں
جامہ زیبی نہ پوچھیے ان کی
جو بگڑنے میں بھی سنور جائیں
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزر جائیں
گریۂ شام سے تو کچھ نہ ہوا
ان تک اب نالۂ سحر جائیں
دوش تک بھی بلاۓ جاں ہیں وہ بال
جانے کیا ہو جو، تا کمر جائیں
شعر دراصل، ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں

حسرت موہانی ​

No comments:

Post a Comment