عشق میں جان سے گزر جائیں
اب یہی جی میں ہے کہ مر جائیں
یہ ہمیں ہیں کہ قصرِ یار سے روز
بے خطر آ کے، بے خبر جائیں
جامہ زیبی نہ پوچھیے ان کی
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہیں
جو تِری یاد میں گزر جائیں
گریۂ شام سے تو کچھ نہ ہوا
ان تک اب نالۂ سحر جائیں
دوش تک بھی بلاۓ جاں ہیں وہ بال
جانے کیا ہو جو، تا کمر جائیں
شعر دراصل، ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
حسرت موہانی
No comments:
Post a Comment