کسی سے رابطے اتنے شدید ہو گئے ہیں
کہ ہم لڑے بھی نہيں اور شہید ہو گئے ہیں
ہمارے بارے میں اچھا گمان کرنے لگے
ہمارے دوست بھی یعنی یزید ہو گئے ہیں
ترے فقیر کو چُھو کر گزر گئی دنیا
ترے فقیر کے کپڑے پلید ہو گئے ہیں
وہ لوگ جن کو مرا پیر ہونا چاہیے تھا
سنا ہے خود وہ کسی کے مرید ہو گئے ہیں
اب ان کو شہر مضافات جیسے لگتے ہیں
یہ گاؤں والے بھی کتنے جدید ہو گئے ہیں
کبھی جو وقت ملے ان کے پاس بیٹھا کر
جو لوگ عشق میں بابا فرید ہو گئے ہیں
عمران عامی
No comments:
Post a Comment