عجب لڑکی ہے وہ لڑکی
ہمیشہ روٹھ جاتی ہے
کہا کرتی ہے یہ مجھ سے
سنو جانوں محبت خوب کرتے ہو
مگر یہ کیسی ضد ہے
زباں سے کچھ نہیں کہتے
مجھے لگتا ہے جیسے تم
پذیرائی کے دو جملے زباں پر رکھنے بھر سے ہی
پریشاں ہو سے جاتے ہو
یا پھر اکتا سے جاتے ہو
مجھے معلوم ہے یہ بھی
تمہاری بولتی آنکھیں
گزرتے ہر نئے پل میں
محبت کے نئے معنی بتاتی ہیں
مجھے یہ بھی بتاتی ہیں
کہ میرا جسم جب ان کی
شعاعوں میں تپا کرتا ہے تب تب
یہ کندن ہوتا جاتا ہے
مگر جانوں
تمہاری مخملی آواز کا لے کر سہارا
محبت کے وہ میٹھے لفظ جب بھی
بدن پر میرے گرتے ہیں
مجھے لگتا ہے کچھ ایسے
خدا نے چھو کے میری روح پھر پاکیزہ کر دی ہو
تو میرے پیارے جانوں
زباں پر وقفے وقفے سے
محبت کے وہ میٹھے لفظ رکھو
کہ مجھ کو وقفے وقفے پر
یوں ہی پاکیزہ ہونے کی
بڑی حسرت سی رہتی ہے
عجب لڑکی ہے وہ لڑکی
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment