Wednesday 30 December 2020

آنکھوں کے مے کدے میں ہوا بے حساب رقص

 آنکھوں کے میکدے میں ہُوا بے حساب رقص

تعبیر پا کے کر رہے تھے سارے خواب رقص

بے چینیوں کا نام غریبوں کی ناچ ہے

اب تو امیر لوگوں کا ہے اضطراب رقص

پہلے پہل تھا زندگی کا رقص ایک شوق

آگے چلا تو ہو گیا شوقِ عذاب رقص

معصوم پوچھتا ہے یہ کثرت کے تار سے

گردش کے ساتھ کیسے ہوا ہم رَکاب رقص

تہذیب سے نہ کوئی تمدن سے واسطہ

دورِِ جدید کا ہے سکھاتا نصاب رقص

نیرو تو بانسری ہی بجاتا رہا فقط

بستی کے میری کرتے رہے ہیں نواب رقص

جلتے ہوئے چراغ نے سورج سے کہہ دیا

آساں نہیں ہے تند ہوا میں جناب رقص

معنی بدل گئے ہیں یہاں اونچ نیٖچ کے

دنیا میں ہو گیا ہے جو عزت مآب رقص

انجام جانتا ہے وہ کچے گھڑے کا بھی

جاوید عشق دیکھ چکا ہے چناب رقص


سردار جاوید خان

No comments:

Post a Comment