طلب ایسی نہ کوئی چیز ضرورت جیسی
کوئی تو بات تھی ہم تم میں محبت جیسی
گر خدا میرا، مِرے دل کی دعا سن لیتا
صورتیں ساری بناتا تِری صورت جیسی
دیکھنا، اس کو فقط ٹوٹ کے دیکھا کرنا
میری حالت بھی تھی دیوانوں کی حالت جیسی
آنکھ میں اترے کوئی چہرہ تِرے چہرے سا
کوئی تصویر تو ہو تیری شباہت جیسی
تیرے ہمراہ تِرا سایہ بھی کب دیکھ سکوں
دل جلاتی ہے کوئی بات رقابت جیسی
ان دنوں وقت بھی ٹھہرا ہوا سا لگتا تھا
اور فرصت بھی تھی ہم کو کوئی فرصت جیسی
یاسمین سحر
No comments:
Post a Comment