Tuesday, 29 December 2020

لبوں تک آئی ہے اک لہر میرے سینے سے

 لبوں تک آئی ہے اک لہر میرے سینے سے

ہنسی میں ڈوب گیا ہوں نکل کے گریے سے

کواڑ کھول کے دیکھا تِری گلی کی طرف

سراب ہی نظر آیا مجھے دریچے سے

یہ مہر و ماہ یہ تارے بھی ماند پڑتے گئے

وہ شاہزادی جو نکلی تھی اپنے حجرے سے

کسی کے سحرِ نگاہی سے ہو عطا تو یہ ہو

یہ عشق ہوتا نہیں یوں کسی کے کرنے سے

خوشی کو آپ نے صاحب غلط شمار کیا

ہنسی تو پھوٹنے لگتی ہے کھل کے رونے سے

مجھ اس فقیر پہ کرتے ہیں رشک شہزادے

کہ شاہزادی کو نسبت ہے میرے حجرے سے


اسامہ جمشید



No comments:

Post a Comment