ریزہ ریزہ سا بھلا مجھ میں بکھرتا کیا ہے
اب ترا غم بھی نہیں ہے تو یہ قصہ کیا ہے
کیوں سجا لیتا ہے پلکوں پہ یہ اشکوں کے چراغ
اے ہوا! کچھ تو بتا پھول سے رشتہ کیا ہے
اس نے مانگا ہے دعاؤں میں خدا سے مجھ کو
اور میں چپ ہوں بھلا اس نے بھی مانگا کیا ہے
شعر گوئی سے کہیں مسئلے حل ہوتے ہیں
جانتے ہم بھی ہیں ان باتوں میں رکھا کیا ہے
وقت جسموں کو کمانوں میں بدل دیتا ہے
کوئی سمجھا دو اسے، خود کو سمجھتا کیا ہے
خود سمجھ جاؤ گے ہاتھوں کی لکیریں فاروق
اس کی آنکھوں میں پڑھو غور سے لکھا کیا ہے
فاروق بخشی
No comments:
Post a Comment