Monday 28 December 2020

ریزہ ریزہ سا بھلا مجھ میں بکھرتا کیا ہے

 ریزہ ریزہ سا بھلا مجھ میں بکھرتا کیا ہے

اب ترا غم بھی نہیں ہے تو یہ قصہ کیا ہے

کیوں سجا لیتا ہے پلکوں پہ یہ اشکوں کے چراغ

اے ہوا! کچھ تو بتا پھول سے رشتہ کیا ہے

اس نے مانگا ہے دعاؤں میں خدا سے مجھ کو

اور میں چپ ہوں بھلا اس نے بھی مانگا کیا ہے

شعر گوئی سے کہیں مسئلے حل ہوتے ہیں

جانتے ہم بھی ہیں ان باتوں میں رکھا کیا ہے

وقت جسموں کو کمانوں میں بدل دیتا ہے

کوئی سمجھا دو اسے، خود کو سمجھتا کیا ہے

خود سمجھ جاؤ گے ہاتھوں کی لکیریں فاروق

اس کی آنکھوں میں پڑھو غور سے لکھا کیا ہے


فاروق بخشی

No comments:

Post a Comment