آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو
فرصت ہو تو پھر ہم کو بھی جلنے سے بچا لو
اے قسمتِ فردا کے خوش آئند خیالو
راتیں نہ سہی، دن ہی مِرے آ کے اُجالو
پتھر کے صنم بھی کبھی کچھ بول سکے ہیں
اے بُت شکن اذہان کے خاموش سوالو
تم میں تو مِرا آہوئے خوش گام نہیں ہے
اے وادئ تخیل کے گم گشتہ غزالو
مٹتی ہوئی تصویر میں کیا رنگ بھرو گے
مٹنا تھا جنہیں مٹ گئے، تم خود کو سنبھالو
اک درد کی دولت تمہیں ہم سونپ رہے ہیں
اب اس کو لُٹا دو کہ حیات اپنی بنا لو
بادِ سحری پھول کِھلا آئی چمن میں
کچھ تم بھی لہو اپنے شہیدوں کا اُچھالو
اِن راہوں میں وہ نقشِ کفِ پا تو نہیں ہے
کیوں پھوٹ کے روئے ہو یہاں پاؤں کے چھالو
چہرے پہ تھکن، بالوں میں گرد، آنکھوں میں سرخی
لمبا ہے سفر، پاؤں کے کانٹے تو نکالو
پھر ساعتِ دیدار وحید آئے نہ آئے
تصویر بنا کر انہیں آنکھوں میں چھپا لو
وحید اختر
No comments:
Post a Comment