Wednesday 30 December 2020

آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو

 آگ اپنے ہی دامن کی ذرا پہلے بجھا لو

فرصت ہو تو پھر ہم کو بھی جلنے سے بچا لو

اے قسمتِ فردا کے خوش آئند خیالو

راتیں نہ سہی، دن ہی مِرے آ کے اُجالو

پتھر کے صنم بھی کبھی کچھ بول سکے ہیں

اے بُت شکن اذہان کے خاموش سوالو

تم میں تو مِرا آہوئے خوش گام نہیں ہے

اے وادئ تخیل کے گم گشتہ غزالو

مٹتی ہوئی تصویر میں کیا رنگ بھرو گے

مٹنا تھا جنہیں مٹ گئے، تم خود کو سنبھالو

اک درد کی دولت تمہیں ہم سونپ رہے ہیں

اب اس کو لُٹا دو کہ حیات اپنی بنا لو

بادِ سحری پھول کِھلا آئی چمن میں

کچھ تم بھی لہو اپنے شہیدوں کا اُچھالو

اِن راہوں میں وہ نقشِ کفِ پا تو نہیں ہے

کیوں پھوٹ کے روئے ہو یہاں پاؤں کے چھالو

چہرے پہ تھکن، بالوں میں گرد، آنکھوں میں سرخی

لمبا ہے سفر، پاؤں کے کانٹے تو نکالو

پھر ساعتِ دیدار وحید آئے نہ آئے

تصویر بنا کر انہیں آنکھوں میں چھپا لو


وحید اختر

No comments:

Post a Comment