Thursday, 31 December 2020

نظر میں کچھ نہیں ٹھہرا ہے اب تک

 نظر میں کچھ نہیں ٹھہرا ہے ابتک

گزرتی ریل بھی ہے بند پھاٹک 

کوئی آواز دیتا لگ رہا ہے

مسلسل ہو رہی ہے دل پہ دستک 

مِرے گھر میں جب آئی فصلِ گِریاں 

پڑوسی نے بجائی خوب ڈھولک 

کسی گھر میں رہے فاقے سے بچے

کہیں کھاتی رہی گندم کو دیمک 

تھی اتنی سرد مہری کچھ نہ پوچھو

نہ ہی سگریٹ اٹھائی اور نہ چینک

نہ تھا دل سے تِرا وہ دوست ہرگز

تِرا اپنا ہی تھا وہ لاکھ بے شک 

مِرے بچے نکل آگے چکے ہیں 

رہا میں ڈھونڈتا بس اپنی عینک

ملیں گے جا کے اب محشر میں ساجد 

فقط یاں تو رہی ہے ان سے چشمک


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment