نظر میں کچھ نہیں ٹھہرا ہے ابتک
گزرتی ریل بھی ہے بند پھاٹک
کوئی آواز دیتا لگ رہا ہے
مسلسل ہو رہی ہے دل پہ دستک
مِرے گھر میں جب آئی فصلِ گِریاں
پڑوسی نے بجائی خوب ڈھولک
کسی گھر میں رہے فاقے سے بچے
کہیں کھاتی رہی گندم کو دیمک
تھی اتنی سرد مہری کچھ نہ پوچھو
نہ ہی سگریٹ اٹھائی اور نہ چینک
نہ تھا دل سے تِرا وہ دوست ہرگز
تِرا اپنا ہی تھا وہ لاکھ بے شک
مِرے بچے نکل آگے چکے ہیں
رہا میں ڈھونڈتا بس اپنی عینک
ملیں گے جا کے اب محشر میں ساجد
فقط یاں تو رہی ہے ان سے چشمک
عجیب ساجد
No comments:
Post a Comment