دوست اک شام اکٹھے تو ہوئے رونے کو
پھر بھی آنسو تو بہت کم ہیں تجھے رونے کو
ایک حد تک میرا بیمار ابھی زندہ تھا
اور تیار تھے سب چھوٹے بڑے رونے کو
ہم تو جیسے کہ کنارے پہ کھڑے ہوتے ہیں
وہ اداسی ہے کہ بس بات ملے رونے کو
جس قدر رونے کی عادت ہے وہ دن دور نہیں
لوگ بلوائیں گے مرنے پہ مجھے رونے کو
جس کے پیچھے نہیں ہوتا کوئی رونے والا
ہم بنائے گئے ضوریز اسے رونے کو
اسامہ ضوریز
No comments:
Post a Comment