Sunday 27 December 2020

دوست اک شام اکٹھے تو ہوئے رونے کو

 دوست اک شام اکٹھے تو ہوئے رونے کو

پھر بھی آنسو تو بہت کم ہیں تجھے رونے کو

ایک حد تک میرا بیمار ابھی زندہ تھا

اور تیار تھے سب چھوٹے بڑے رونے کو

ہم تو جیسے کہ کنارے پہ کھڑے ہوتے ہیں

وہ اداسی ہے کہ بس بات ملے رونے کو

جس قدر رونے کی عادت ہے وہ دن دور نہیں

لوگ بلوائیں گے مرنے پہ مجھے رونے کو

جس کے پیچھے نہیں ہوتا کوئی رونے والا

ہم بنائے گئے ضوریز اسے رونے کو


اسامہ ضوریز

No comments:

Post a Comment