مانا کہ یہاں اپنی شناسائی بھی کم ہے
پر تیرے یہاں رسمِ پذیرائی بھی کم ہے
ہاں تازہ گناہوں کے لیے دل بھی ہے بیتاب
اور پچھلے گناہوں کی سزا پائی بھی کم ہے
کچھ کارِ جہاں جاں کو زیادہ بھی لگے ہیں
کچھ اب کے برس یاد تری آئی بھی کم ہے
کچھ غم بھی میسر ہمیں اب کے ہیں زیادہ
کچھ یہ کہ مسیحا کی مسیحائی بھی کم ہے
کچھ ظلم و ستم سہنے کی عادت بھی ہے ہم کو
کچھ یہ ہے کہ دربار میں سنوائی بھی کم ہے
ضیا ضمیر
No comments:
Post a Comment