یا تو زنداں، یا سرِ دار، یہی ہوتا ہے
ظلم کے عہد میں سرکار، یہی ہوتا ہے
حاکمِ شہر ہے، سوداگرِ ایمان و ضمیر
کچھ بھی ہو جائے، خریدار یہی ہوتا ہے
سر کٹا دینا، مگر سر کو جھکانا نہ کبھی
جس کو کہتے ہیں نا انکار، یہی ہوتا ہے
اب تو خود بھی ہمیں معلوم نہیں ہم کیا ہیں
کبھی کافر، کبھی غدار، یہی ہوتا ہے
لوگ کیا تیسری اک چیز نئی لے آئے
یا تو انکار یا اقرار، یہی ہوتا ہے
کوئی عیسیٰ، کوئی سقراط ہو یا کوئی حسین
جو بھی سردار، سرِ دار، یہی ہوتا ہے
پھول سے پھول ہی اگتا ہے کوئی خار نہیں
جو بھی کر لے کوئی، ہر بار یہی ہوتا ہے
خالد جاوید جان
No comments:
Post a Comment