سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا
جھوٹوں کیلئے شہر بھی چھوڑا نہیں جاتا
تم کتنا ہی عہدوں سے نوازو ہمیں لیکن
نفرت کا شجر ہم سے تو بویا نہیں جاتا
سوچو تو جوانی کبھی واپس نہیں آتی
دیکھو تو کبھی آ کے بڑھاپا نہیں جاتا
دل پر تو بہت زخم زمانے کے لگے ہیں
خود داری سے لیکن کبھی رویا نہیں جاتا
دنیا بھی سکوں سے کبھی رہنے نہیں دیتی
نوحہ بھی کبھی اپنوں کا لکھا نہیں جاتا
پہرے مرے ہونٹوں پہ لگا رکھے ہیں اس نے
چاہوں میں گلا کرنا تو بولا نہیں جاتا
تنکے بھی نہیں چھوڑے ہیں نیر کسی گھر کے
سیلاب وہ آیا ہے کہ دیکھا نہیں جاتا
اظہر نیر
No comments:
Post a Comment