وہ طلب گار ہو گیا تو پھر
مجھ سے انکار ہو گیا تو پھر
کتنے مغرور ہو گئے مرہم
زخم خوددار ہو گیا تو پھر
میرے دشمن میں ایک بات کہوں
میں تِرا یار ہو گیا تو پھر
جو خیالوں میں بھی نہیں آتا
اس کا دیدار ہو گیا تو پھر
تُو ہے، بس تُو ہے اور بس تُو ہے
تجھ سے بیزار ہو گیا تو پھر
تم مِری اچھی دوست ہو لیکن
بعد میں پیار ہو گیا تو پھر
زبیر تابش
No comments:
Post a Comment