Tuesday, 29 December 2020

وہ طلبگار ہو گیا تو پھر

 وہ طلب گار ہو گیا تو پھر

مجھ سے انکار ہو گیا تو پھر

کتنے مغرور ہو گئے مرہم

زخم خوددار ہو گیا تو پھر

میرے دشمن میں ایک بات کہوں

میں تِرا یار ہو گیا تو پھر

جو خیالوں میں بھی نہیں آتا

اس کا دیدار ہو گیا تو پھر 

تُو ہے، بس تُو ہے اور بس تُو ہے

تجھ سے بیزار ہو گیا تو پھر 

تم مِری اچھی دوست ہو لیکن

بعد میں پیار ہو گیا تو پھر


زبیر تابش

No comments:

Post a Comment